مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ان کی جماعت کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔ حکومت کو یکطرفہ فیصلے کرنے کا مینڈیٹ حاصل نہیں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا ملک میں انٹرنیٹ اور آئی ٹی سیکٹر کو درپیش مسائل پر بات کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ حکومت کو انٹرنیٹ کی اسپیڈ میں کمی کے بجائے اسے تیز کرنا تھا، اور اسے محدود کرنے کے بجائے ان علاقوں میں پہنچانا تھا جہاں ابھی تک انٹرنیٹ نہیں پہنچا۔
لاڑکانہ (عبدالفتاح اوڈھو) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ان کی جماعت کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد کے حوالے سے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو یکطرفہ فیصلے کرنے کا مینڈیٹ حاصل نہیں ہے۔رتوڈیرو میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ گڑھی خدابخش کے عظیم الشان جلسے میں بھرپور عوامی شرکت سے واضح ہے کہ 17 سال گزرنے کے باوجود عوام آج بھی شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے نظریئے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے مسائل حل کرنا اُن کی اولین ترجیح ہے اور ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ کم وسائل کے باوجود محنت کر کے زیادہ سے زیادہ عوامی مسائل حل کیئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ اب یہ محسوس ہو رہا ہے کہ چاہے ہم حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں چھوٹے صوبوں سے وفاق کا رویہ ہمیشہ ایسا ہی رہتا ہے۔ جہاں تک پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان معاہدہ ہوا ہم نے حکومت سازی میں اس حد تک ساتھ دیا کہ وزیراعظم کو ووٹ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ طے کیا تھا کہ نہ صرف صوبوں کو ان کا حق ملنا چاہیے بلکہ ان کے ساتھ یہ بھی طے ہوا تھا کہ چاروں صوبوں کی پی ایس ڈی پی کو مل کر بنائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے وفاقی حکومت اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کمیٹی تشکیل دی تھی کہ ہماری سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی (سی ای سی) کے اجلاس سے قبل حکومت کے ساتھ بات چیت کی جائے اور جو مسائل ہیں ان کو حل کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ ہم سی ای سی کے سامنے جب وہ رپورٹ دیں تو وہ مثبت رپورٹ ہو اور اس کا کوئی نتیجہ نکلے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ سیاسی بنیادوں پر کیے گئے وعدوں پر صحیح طریقے سے عملدرآمد نہیں ہورہا۔ جس طریقے سے وفاق کو صوبوں کے ساتھ مل کر چلنا چاہیے اور تمام صوبوں کو ان کا حق دینا چاہیے۔ اس حوالے سے حکومت میں بہتری کی گنجائش ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہماری شکایت کو سنجیدہ لیا جائے گا اور معنی خیز ڈائیلاگ کے نتیجے میں ہم صوبوں کے اعتراضات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ جو سیاسی وعدے کیے گئے ہیں، اس پر بھی عملدرآمد کیا جائے گا۔ ایک سوال کے جوا ب میں چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ حکومت کے پاس یکطرفہ فیصلے کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے اور نہ ہی اسے پارلیمان میں 90 کی دہائی والی دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ ان کے خیال میں شاید ان کے پاس دو تہائی اکثریت ہے اور ان کو کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن زمینی حقائق اس سے مختلف ہے۔ اس وقت ان کے پاس باقی سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر اجتماعی فیصلے کرنے کا مینڈیٹ تو ہے یکطرفہ فیصلہ کرنا اور وہ بھی ایسا یکطرفہ فیصلہ کرنا جو متنازع ہو، جو پانی کے بنیادی حق پر ہو، جو 1991 کے ارسا کے معاہدے کی خلاف ورزی ہو۔ چئیرمین پی پی پی نے کہا کہ حکومت پر زور دیا کہ اگر آپ نے کوئی منصوبہ کامیاب بنانا ہے تو مل کر فیصلے کرنے ہوں گے۔ چھوٹے صوبوں کے اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ کسی منصوبے پر آگے بڑھتے جائیں گے تو اس کے لیے تو بالکل ان کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے اسی طریقے سے منصوبے متنازع ہوتے ہیں۔ مل بیٹھ کر بات چیت کرکے سب کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے بعد اگر کوئی منصوبہ بنایا جائے گا تو وہ کامیاب ہو گا ورنہ ایک زمانے میں کسی نے سوچا تھا کہ وہ کالاباغ ڈیم بنائے گا۔ آپ مجھے بتائیں کہ وہ ڈیم کہاں ہے؟ وہ بھی یکطرفہ فیصلہ تھا یہ بھی ایک یکطرفہ فیصلہ ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ یہ میری ذمہ داری ہے کہ اپنے عوام کو کسی نہ کسی طریقے سے پینے کے صاف پانی کے کسی منصوبے کی صورت میں پہنچا دوں۔ میں جانتا ہوں کہ این ایف سی ایوارڈ کے مطابق جائز حق ایک بار بھی نہیں ملا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے نا صرف پاکستان بلکہ پورا ریجن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو لیڈ کیا ہے، پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) کا دور، پی ڈی ایم کا دور، آج کا جو بھی دور، ان تمام حکومتوں میں اگر ہمیں اپنا صحیح طریقے سے شیئر نہیں مل رہا تھا، تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اب کام نہیں ہوسکتا، ہم نے اپنے طریقے سے دوسرا بندوبست کیا۔ پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ اگر معاشی طور پر بہتری اور مہنگائی میں کمی آئی ہے، تو پیپلز پارٹی اس کو ویلکم کرتی ہے۔ اگر معاشی بہتری آرہی ہے تو ہماری جماعت کو مؤقف ہوگا کہ اس بہتری کو اب عوام کو محسوس ہونا چاہیے۔ انہوں نے نشاندھی کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کا اپنا منصوبہ تھا کہ پاکستان کو ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانا ہے، اس کے لیے آپ کو آئی ٹی سیکٹر اور ٹیک سیکٹر سے 60 ارب ڈالر کی برآمدات چاہئیں تھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے جا پر توجہ درکار ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا ٹیکنالوجی سیکٹر تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا، انٹرنیٹ کو جو آج کل انفرااسٹرکچر ہے، اس کی انہیں سمجھ نہیں آتی، ان کی سیاست موٹروے سے شروع ہو کر میٹرو ٹرین پر ختم ہوتی ہے۔چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا ملک میں انٹرنیٹ اور آئی ٹی سیکٹر کو درپیش مسائل پر بات کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ حکومت کو انٹرنیٹ کی اسپیڈ میں کمی کے بجائے اسے تیز کرنا تھا، اور اسے محدود کرنے کے بجائے ان علاقوں میں پہنچانا تھا جہاں ابھی تک انٹرنیٹ نہیں پہنچا۔ “کیسا حکومتی یکطرفہ فیصلہ ہے، وہ بھی ہر روز دوسرا نیا بہانہ، کبھی مانتے ہیں کہ بند کرنے جا رہے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں کیا، کبھی کہتے ہیں کہ تار کٹ جاتا ہے، کبھی کہتے ہیں کہ کوئی ٹیسٹنگ ہو رہی ہے، اب مجھے بتائیں کہ پاکستان کے انٹرنیٹ کیبل میں ایسا کیا ہے کہ سمندر کی مچھلیاں صرف پاکستان کی انٹرنیٹ کیبلز کھاتی رہتی ہیں، وہ بھی جب اسلام آباد میں کوئی دھرنا ہو۔ انہوں نے کہا کہ عوام ملک میں سیاسی استحکام اور تحفظ چاہتے ہیں۔ ” اگر وہ پاکستان کے عوام کے سامنے ڈیجیٹل کے حوالے سے کہتے کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ڈس انفارمشین ہوتی ہے، انتہاپسند تنظیمیں اسے استعمال کرکے نفرتیں پھیلاتی ہیں، لوگوں کو جانی نقصان پہنچاتے ہیں تو اس کے لیے میں بھی تیار ہوتا، میڈیا میں بھی لوگ تیار ہوتے۔” چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ یکطرفہ کسی سے بات کیے بغیر کسی کا انٹرنیٹ بند کردیں گے، اور وہ بھی اس ملک میں جہاں 70 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر پر مشتمل ہے، تو آپ نے ان 70 فیصد کو خلاف کر دیا، ہم اس اقدام کی حمایت نہیں کریں گے۔