پنجاب میں مصنوعی معیار تعلیم کی تشہیر

پنجاب کے تعلیمی نظام کو معیاری تعلیم کے لیے موزوں بنانے کے لیے زمینی حقائق کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔

پنجاب میں مصنوعی معیار تعلیم کی تشہیر
تحریر: سیف الرحمن کلوکا
سرکاری سکول
معیاری سکول
یہ سلوگن پنجاب کے سرکاری سکولوں کی تشہیر کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے سکولز میں رنگ و روغن کرنے کو معیار مقرر کر رکھا ہے۔ اس سال پنجاب بھر کے تعلیمی بورڈز کے جماعت نہم کے رزلٹ نے نا صرف معیاری سکول کے دعوؤں کو غلط ثابت کر دیا ہے بلکہ والدین سے لیکر وزیر تعلیم تک سب کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات کے تعلیمی مستقبل کو تباہی سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ وزیر تعلیم پنجاب موجودہ رزلٹ پر برہم ہیں تو دوسری طرف والدین شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ اس ساری صورتحال میں فکرمند نہیں ہیں تو وہ صرف محکمہ تعلیم کے افسران ہیں جو موجودہ رزلٹ پر شرمندہ ہونے اور خراب رزلٹ پر احتساب کا نظام بنانے کی بجائے 35 فیصد رزلٹ والے سکولوں کے اچھے نمبرز لینے والے طلبا و طالبات کے نمبرز لکھ کر تشہیری مہم چلا رہے ہیں۔
والدین بچوں کو سرکاری سکولوں میں مجبوری سے بھیجتے ہیں۔۔۔۔ جہاں جہاں والدین کے پاس آپشن ہوتا ہے وہاں بچوں کو پرائیویٹ سکولز میں بھیجنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں پرائیویٹ سکولز بلڈنگز کو رنگ و روغن کر کے اور کلاس رومز میں تعلیم سے متعلقہ چارٹس اور ڈسپلے کی مدد سے خوشنما بناتے تھے۔۔۔۔ اس وقت سرکاری سکولوں میں تقریباً ٹاٹ کلچر تھا یا اس کے قریب قریب۔۔۔۔۔
سرکاری سکولوں کے ہیڈ ماسٹر صاحبان اور محکمہ تعلیم کے افسران جب رنگ و روغن کے ذریعے سکولز کو خوبصورت بنانے کی طرف متوجہ ہوئے تب موجودہ صدی کے پہلے عشرے میں پرائیویٹ سکولز انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے اپنے طلبہ و طالبات کو وقت کی ضرورت کے مطابق تعلیم دینا شروع کر چکے تھے۔۔۔۔ پرائیویٹ سکولز اب آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو معیاری تعلیم کے فروغ کا ذریعہ بنا کر آگے بڑھ رہے ہیں اور محکمہ تعلیم پنجاب آج بھی رنگ و روغن میں اٹکا ہوا ہے۔۔۔۔۔
سرکاری سکول معیاری سکول کے سلوگن کے ساتھ رنگ برنگی عمارات کی تصاویر ایجوکیشن اتھارٹی سے لیکر منسٹر ایجوکیشن تک سبھی ۔۔۔۔ ایک کام لگے ہوئے ہیں ۔۔۔۔
سرکاری پرائمری سکولوں میں عمومی طور پر دو کلاس رومز اور ایک ، دو یا زیرو ٹیچر ۔۔۔۔ عمارات کو رنگ و روغن کے ذریعے سرکاری سکول معیاری سکول ۔۔۔۔۔
کچھ سکولز میں دو کلاس رومز ہیں اور دو ٹیچر ہیں۔ ان میں سے ایک کلاس روم کو ای سی سی ای روم بنا دیا گیا ہے۔
ایسی صورتحال میں سکول معیاری کیسے بن سکتے ہیں البتہ محکمہ تعلیم کے افسران خود کو اور اپنے سے بڑے افسران کو دھوکہ ضرور دے سکتے ہیں۔
سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی کوئی بھی پالیسی زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتی۔ ٹیچر کی بھرتی سے تبادلے تک کوئی بھی پالیسی معیاری تعلیم کے لیے نہیں ہے۔ اساتذہ کرام کو ڈینگی سمیت طرح طرح کی فضول مصروفیات میں لگا کر معیاری تعلیم کے کھوکھلے اور جھوٹے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔
مردم شماری ہو یا امتحانی ڈیوٹی معزز اساتذہ کرام ہر دم تیار ملتے ہیں کیونکہ تنخواہ کے ساتھ اضافی پیسے ملتے ہیں۔
اکیڈمیوں میں پڑھانے والے سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ اساتذہ اکیڈمی میں بھی پڑھانا بند کر دیں تو پنجاب میں تعلیمی ڈھانچہ زمین بوس ہو جائے۔
پنجاب کے تعلیمی نظام کو معیاری تعلیم کے لیے موزوں بنانے کے لیے زمینی حقائق کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ (جاری ہے)

متعلقہ خبریں

Back to top button