“مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے”

“مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے“
سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی صورت حال اس وقت ظریف لکھنوی کے اس شعر کے عین مطابق ہے
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں بد نظمی، بدانتظامی اور کرپشن روکنے کی ذمہ داری متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے افسر کے پاس ہوتی ہے۔ کسی تھانے میں بدنظمی ہو تو ایس ایچ او کو سب سے پہلے ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی سکول میں کوئی بد نظمی ہو تو سکول کے ہیڈ ٹیچر کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے لیکن اگر ضلع بھر کے ہائی اور ہائیر سکینڈری سکولز میں کرپشن اور لوٹ مار ہو تو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سکینڈری ذمہ دار نہیں ہوتا کیونکہ وہ شاید محکمہ کے اعلیٰ افسران کا منظور نظر ہے۔
ضلع بہاولنگر کے 140 سے زائد ہائی اور ہائیر سکینڈری سکولز کے ہیڈ ٹیچرز نے ایڈیشنل گرانٹ کی مد میں لوٹ مار کی۔ ضلع بھر میں شور برپا ہوا۔ میڈیا پر خبریں چلیں۔ شہریوں کی جانب سے درخواستیں دی گئیں۔ سوشل میڈیا پر خوب واویلا ہوا مگر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سکینڈری بہاولنگر کے کان پر جوں تک نا رینگی۔ وہ خواب خرگوش کے مزے لوٹتے رہے۔ اصولی طور پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سکینڈری کو پہلے دن سے ہی ایڈیشنل گرانٹ کی خرد برد کو روکنا چاہئیے تھا۔ اگر انکی لا علمی میں یہ سب کچھ ہوا تو کیا وہ صرف “ٹی اے” ” ڈی اے” کھانے کے لیے سیٹ پر بیٹھے ہیں۔
اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ میں ہیڈ ماسٹر صاحبان کی انکوائری ہوئی، سیکرٹری ایجوکیشن ساؤتھ پنجاب نے انکوائری کروائی، نیب نے انکوائری شروع کر دی، سیکرٹری سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے بھی انکوائری شروع کر دی تو اب ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سکینڈری بہاولنگر نیند سے بیدار ہوئے ہیں۔
انہوں نے ایک لیٹر کے ذریعے ایڈیشنل گرانٹ لینے والے ہیڈ ماسٹر صاحبان کو طلب کر لیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب جبکہ سیکرٹری سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے تو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سکینڈری بہاولنگر نے ہیڈ ماسٹر صاحبان کو کس مقصد کے لیے طلب کیا ہے۔
کیا اب وہ ریکارڈ میں ردوبدل اور جعل سازی کے لیے یہ پریکٹس کر رہے ہیں ؟
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سکینڈری بہاولنگر نے خود ہیڈ ماسٹر صاحبان کی میٹنگز میں انہیں ایڈیشنل گرانٹ لینے کی ترغیب دی تھی اور اب انکوائری کے لئے ریکارڈ کی تیاری کی ٹریننگ دینا چاہتے ہیں۔
اصولی طور پر ایڈیشنل گرانٹ میگا کرپشن سکینڈل کی تحقیقات کرنے سے پہلے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سکینڈری بہاولنگر کو عہدے سے ہٹایا جائے تاکہ وہ انکوائری پر اثر انداز نا ہو سکیں اور سب سے پہلے انکی انکوائری کی جائے کہ وہ اس سارے پراسس کے دوران کہاں غائب تھے۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سکینڈری بہاولنگر کا دامن کرپشن اور مالی بد عنوانی سے پاک نہیں ہے۔ موصوف رول 17 اے کے تحت جونیئر کلرکس کی بھرتیوں میں ہونے والی لوٹ مار کا بھی حصہ رہے ہیں اور دو لیکچرار اسسٹنٹ کی تقرری کر کے آرڈرز واپس لے چکے ہیں تاکہ وہ دونوں امیدوار عدالت کے ذریعے بحال ہو جائیں۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سکینڈری کے آفس کے سالانہ اخراجات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
وزیر تعلیم کرپشن کے خلاف اعلان جنگ کی تشہیر سوشل میڈیا پر کرتے پائے جاتے ہیں مگر عملی اقدامات کی صورتحال یہ ہے کہ ایڈیشنل گرانٹ ہضم ہو جانے کے بعد ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سکینڈری ہیڈ ٹیچرز کو طلب کر کے انکوائری کر رہا ہے۔ جبکہ اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل پانے کے بعد ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سکینڈری انکوائری نہیں کر سکتے۔
نئے تعینات ہونے والے سی ای او ایجوکیشن بہاولنگر فی الحال معاملات کو درست نہیں کر پائے اور شاید کر بھی نا پائیں کیونکہ کرپشن میں ملوث افسران ہی کرپشن کی تحقیقات میں شامل ہیں۔ جو لوگ میگا کرپشن سکینڈل میں ملوث ہیں وہی اب بھی ایجوکیشن اتھارٹی کے معاملات چلا رہے ہیں۔
آخر میں ظریف لکھنوی کے بقول یہی عرض ہے کہ
کچھ تجھ کو خبر بھی ہے دیکھ آئینے میں صورت
او ترچھی نظر والے بھینگا نظر آتا ہے