نظام جس سے ریاستیں چلتی ہیں

ریاست میں نظام سے مراد وہ اصول، قواعد، اور ادارے ہیں جو ریاست کے مختلف امور کو منظم کرنے اور چلانے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔ یہ نظام عوام کی فلاح و بہبود، امن و امان، عدل و انصاف، اور ترقی کو یقینی بنانے کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ قوائدوضوابط کا ایک پورا ڈھانچہ تیار کیا جاتا ہے جس کی بنا پر ہی کوئی بھی ریاست چلتی ہے عمومی طور پر ریاست کے نظام کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے سب سے پہلے ریاست کا معاشی نظام ،پھر اسکا سیاسی نظام اور پھر اس ریاست کا تعلیمی نظام ۔خود مختار ریاستیں باقائدہ ایک نظام کی پیروری کرتی ہیں اور دینا میں مقام بناتی ہیں یا کھوتی ہیں اگر ہم دنیا کی بڑی ریاستوں کی بات کریں تو وہ باقائدہ ایک نظام کو فالو کرتی ہیں سب سے پہلے چین کی بات کی جائے تو انیس سو انچاس میں ایک جھاڑو اور کھرپا لے کر صفائی سے اپنی ترقی کا آغاز کرنے والی یہ ریاست سوشلزم کو فالو کرتی ہے جس میں سرمایہ سارا حکومت کی ملکیت ہوتا ہے اور وہ اپنے باشندوں کو ضروریات زندگی فراہم کرنے کی پابند ہے خیر اس کے بعد اگر بات کی جائے ریاست متحدہائے امریکہ کی تو وہاں کیپٹلزم کا نظان رائج ہے جس کے مطابق سرمایہ ہر شخص کی انفرادی ملکیت ہے غلام ریاستیں جیساکہ افریقہ کے بہت سارے ممالک انکا اپنا کوئی نظام نہیں ہوتا بلکہ یہاں وہ لوگ اپنا نظام رائج کرتے ہیں جن کی ان ریاستوں میں حکومت ہوتی ہےاب ہم بات کرتے ہیں نظام کی اہمیت کی نظام دراصل اس خطے کی اساس سے جڑا ہوتا ہے وہاں کی روایات تاریخ ان سب کا حصہ ہوتی ہیں جیساکہ ہم مسلماں ہیں اور ہمارا دین ایک مکمل ضابطہ حیات بلکہ ایک ریاست کا مکمل نظام پیش کرتا ہے جیساکہ نبی کرمﷺ نے ریاست مدینہ بنا کر پیش کر دیا جس میں آپ نے زکوۃ اور ٹیکس کا نظام متعارف کروا کے دنیا کے لیے معاشی نظام کو بیان کر دیا ،اس کے علاوہ ایک تربیت یافتہ جماعت تیار کی جو کہ تربیت ایسی کہ حضرت بلال کوڑے تو کھا سکتے ہیں لیکن اپنے آقا کو نہیں چھوڑ سکتے وہی حضرت عمر اپنی تمام آسائشیں چھوڑکر آپ ﷺ کی جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور پھر ﷺنے تربیت کی اور پھر انہوں نے قیصر و قصریٰ فتح کیے صلح حدیبیہ کر کے آپﷺ نے اپنے سیاسی نظام کو تقویت دی تعلیمی نظام کے لیے اسلام کی پہلی درس گا ہ دارارقم کا قیام ایک مکمل خود مختار تعلیمی نظام کے لیے شروعات کی ۔آپﷺ جب عرب قبیلے میں پیدا ہوئے تو وہ خطہ تباہ حال تھا آپﷺ نے سب سے پہلے ایک تربیت یافہ جماعت تیار کی جس کے لیے بہت عرصہ لگا اس وقت کے عرب کے فرسودہ نظام کے مقابلے میں اپنا نظام لے کر آئے اور ریاست مدینہ قائم کی۔اب ہم بات کرتے میں اپنے پیارے ملک پاکستان کی دیکھیں آپ کو یہاںتک پڑھ کر اندازہ ہوگیا ہوگا کہ کسی بھی ریاست کی ترقی یا پستی کا دارومدار اس ریاست میں موجود نظام سے ہوتا ہے ۔ میکاؤلی ایک اطالوی فلسفی، سیاستدان، اور مصنف تھا اس نے ایک سیاسی نظام پیش کیا میکاؤلی کے مطابق سیاست کا بنیادی مقصد اقتدار کا حصول اور اسے برقرار رکھنا ہےحکمران کو اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کرنا چاہیے، چاہے وہ اخلاقی ہو یا غیر اخلاقی میکاؤلی نے سیاست کو اخلاقیات سے الگ کر دیاہے اس کے مطابق طاقت کا استعمال جائز ہے اب ہم اپنے ملک کے سیاسی نظام کا تجزیہ بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں کہ ہمارا سیاسی نظام اپنا اسلام والا ہے یا ہم سیاست میں میکاؤلی کو فالو کر رہے ہیں اب بات کرتے ہیں معاشی نظام کی ایڈم سمتھ جس نے سرمایہ درانہ معاشی نظام کی بنیاد رکھی اس کے مطابق معشیت کو آزاد رہنا چاہیے جہاں طلب اور رسد کی بنیاد پر قیمتوں کا تعین ہواگر آسان الفاظ میں بات کریں تو یہ نظام سود اور ذخیرہ ندوزی کو جائز قرار دیتا ہے انید ہے اب آپ ہمارے ملک کے معاشی نظام کو سجھ سکیں گے کہ یہ نظام ہمارا اپنا یعنی نبی ﷺ والا ہے یا ہم نے کسی اور کا معاشی مظام فالو کیا ہوا ہے آخر میں بات کرتے ہیں تعمیلی نظام کی لارڈ میکالے کا تعلیمی نظام 1835 میں برصغیر کے برطانوی راج کے دوران متعارف کرایا گیا تھا۔ اس کا مقصد برصغیر میں ایسا تعلیمی نظام قائم کرنا تھا جو برطانوی مفادات کو فروغ دے جس میں انگریزی زبان کو اہمیت دے کر ثقافتی اور علاقائی زبانوں کو نظر انداز کیا گیا اس کا مقصد کلرک بھرتی کرنا ہے جوکہ ذہنی طور پر غلام بھی ہوں جیسا کہ لاڑ میکالے نے خود کہا تھا اب آپ اس کا تجزیہ بھی کر سکتے ہیں بلا تاخیر اب ہم ان تمام کے حل کیطرف آتے ہیں اس سے پہلے چند سوالات کیا ہمیں حکومتیں بدلنے کی ضرورت ہے ؟ کیا ہمیں حکمران بدلنے کی ضرورت ہے ؟ یا ہمیں نظام بدلنے کی ضرورت ہے ؟ہمیں نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے ہمارے پاس اگر کوئی چیز خراب ہوجائے تو ہم نئی چیز لانے کی پہلے تیاری کرتے ہیں ایسا ممکن نہیں کہ محض نعروں سے نظام کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اس لیے تیاری ضروری ہے اور ایک تیار کی ہوئی تربیت یافتہ جماعت ۔اب یہ خادم اجزت چاہتا ہے مزید اگلے کالم میں بشرط زندگی انشاللہ۔